Wednesday 16 December 2015

راہ اعتدال

ملک میں قدیم وجدید تعلیم یافتوں کی دو برابر کی جماعتیں قائم ہیں، ہمارے کام کا پروگرام تو ایسا تھا کہ ان دونوں کے درمیان سلسلۂ اتصال کا کام دیتا، لیکن کبھی کبھی ہم کو عجیب وغریب مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہی وقت ہوتا ہے جب ہمارے کانوں میں یہ آواز آتی ہے:

دو دل دریں رہ سخت تر عیب است سالک را
خجل ھستم ز کفر خود بوئے ایماں ھم

 فریق اول کہتا ہے کہ علوم یورپ کی آمیزش سے تم علوم قدیم کے حرم اقدس کی توہین کرتے ہو، جدید فرقہ الزام دیتا ہے کہ پرانے اور فرسودہ علوم کو زندہ کرکے تم پھر ہمارے پاؤں میں وہی زنجیریں ڈالنا چاہتے ہو جن کو پجاس برس کی محنت میں ہم نے بڑی مشکل سے کاٹا ہے۔

حقیقت حال پر نظر ہو تو دونوں پر اپنی غلطی آپ منکشف ہوجائے: یورپ کے علوم، قدیم علوم کی معصومیت میں رخنہ انداز نہیں، بلکہ اس کے حسن وجمال کی افزائش کا سامان ہیں۔ 

دوسرے فریق سے کہنا ہے کہ اسلاف کے متروکہ علوم کو ذرا صیقل کرکے دیکھو، زنجیر پا نہیں، تمہارے پائے کمال کا خلخال ہے، ورنہ سچ یہ ہے کہ یورپ کے دیس میں تم غریب ونادار والدین کی وہ ناداں بیٹی ہو جو صرف سسرال کی دولت پر نازاں ہے۔  

۔۔۔ از سید سلیمان ندوی  

No comments:

Post a Comment