Saturday 16 June 2012

An Important Passage from Sayyid Sulayman Nadwi's Ahl as-Sunna Wa al-Jama'ah

Here is an important passage from Nadwi's monograph Ahl as-Sunnah Wa al-Jama'ah.

It comments critically on the creed and method that evolved during the 3rd/4th century (hijri) onwards amongst some Sunnis.

A translation of this will follow later, insha Allah:


الغرض اھل السنۃ نے جو صراطِ مستقیم اختیار کیا وہی در حقیقت اس طوفانِ افکار اور طغیانِ خیالات کی حالت میں سفینۂ نوح ہو سکتا تھا،

لیکن دو تین سو برس کے بعد تیسری چوتھی صدی میں جب مسلمانوں میں فلسفہ نے عروج حاصل کر لیا، اور ممالکِ اسلامیہ کے در و دیوار سے اس آواز کی بازگشت آنے لگی، تو خود اھلِ سنت میں چند افراد اُٹھے اور قدیم شاہراە کو چھوڑ کر انھوں نے اھل السنت اور دیگر فرقوں کے درمیان ایک نیا راستہ پیدا کیا، اور عقل و نقل اور فلسفہ و سنت کے درمیان ایک متذبذب صورت کو اپنا مسلک قرار دیا،

انھوں نے یہ سمجھا کہ اس طریقہ سے وە عقل و نقل اور فلسفہ و شریعت کی تطبیق میں نہ تو معتزلہ کی طرح قرآن و سنت سے دور پڑ جائیں گے، اور نہ اربابِ ظواہر کی طرح اہلِ فلسفہ کے نشانۂ اعتراضات بنیں گے، لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے یہ مسائل نہ تو اصل قرآن و سنت کے مطابق رہے، اور نہ عقل و فلسفہ کے دربار ہی میں وە رسوخ پاسکے۔

مثلا ایک طرف تو انھو نے معتزلہ کے ساتھ ہو کر خدا کے لئے اعضاء کے اطلاق سے انکار کیا، اور ان آیتوں میں جن میں اللە تعالی کے ہاتھ اور منہ کا ذکر ہے تاویل کی، اور دوسری طرف ظاہریہ کے ساتھ خدا کی رویت کا اقرار کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ نہ اھل السنت کا ساتھ دے سکے، اور نہ اہلِ فلسفہ کی معیت برقرار رە سکی

ان کو بدیہیات کا انکار کرنا پڑا کہ رؤیت کے لئے مرئی کا جسم ہونا، متحیز ہونا، ذی لون ہونا، آنکھ کے سامنے ہونا، اس سے ایک مسافت پر ہونا، ضروری نہیں ۔ ایک اور مسئلہ میں یعنی مسئلہ جبر و قدر میں انھوں نے اسی قسم کا توسط اختیار کیا، ایک طرف تو یہ کہا کہ تمام افعال کا خالق خدا ہے، یہ کہ کر گویا اپنے کو معتزلہ اور قدریہ سے الگ کیا، دوسری طرف انسان کیلئے کسب ثابت کیا کہ جبر لازم نہ آئے، لیکن جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا یہ کسب فعل کے وجود میں موثر بھی ہے؟ تو جواب نفی میں دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ وە جبریہ سے قریب ہو گئے، جیسا کہ ہر صاحبِ نظر کو تفسیرِ کبیر میں امام رازی کا انداز نظر آتا ہے۔  

جس طرح اسلام میں بہت سے ایسے فرقے ہیں جو در حقیقت دائرە اسلام میں داخل نہیں، اسی طرح بہت سے ایسے فرقے بھی ہیں جو خو کو اھلِ سنت کہتے ہیں لیکن حقیقت وە ان میں سے نہیں ہیں، سبب یہ ہے کہ قدمائے اھل السنت نے جو اصول قرار دئے تھے، دیگر عقل پرستوں کے اعتراضات سے مرعوب ہو کر متاخرین نے ان میں تبدیلی کردی، اور بایں ہمہ وە اپنے کو اھل السنت سمجھتے ہیں، بلکہ لفظ اھل السنت کا صحیح مخاطب صرف اپنے کو ہی جانتے ہیں تیسری چوتھی صدی سے اھل السنت تین عظیم الشان شاخوں میں منقسم ہیں

اشاعرە، حنابلہ اور ماتریدیہ: اشاعرە امام ابو الحسن کی طرف منسوب ہیں، اور امام شافعی کے عقائد کے شارح سمجھے جاتے ہیں، اس لئے تمام شوافع اشعری ہیں، حنابلہ اپنے کو امام احمد بن حنبل کے پیرو کہتے ہیں، ماتریدیہ امام ابو منصور ماتریدی کے پیرو ہیں، جو بچند واسطہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے، اس لئے احناف نے عقائد میں ان کو اپنا امام مانا ۔۔۔۔۔ بہر حال ان بزرگوں کے باب میں جو اقوال ملتے ہیں وە قدمائے اھل السنت اور سلفِ صالح کے مطابق ہیں لیکن متاخرین اھلِ سنت سے بڑی مسامحت یہ ہوئی کہ ان مسائل جن کے متعلق جن سے شریعت خاموش تھی، اُن کو حوالۂ علمِ الہی کرنے کے بجائے ان کی نسبت دیگر فرقوں کی طرح ادعائی پہلو اختیار کیا، اور بہت سے فلسفیانہ مسائل کو جن کو شریعت سے اصلا تعلق نہ تھا ان کو داخلِ عقائد کردیا ۔

ان تصریحات سے واضح ہوگا کہ تارکینِ سنت اور متاخرینِ اھلِ سنت جنہوں نے معتزلہ اور دیگر عقل پرست فرقوں سے مرعوب ہو کر قدمائے اھلِ سنت کے اصول میں ترمیم کی، اور اپنے مذہب کو قواعدِ عقلی کے مطابق بنانے کی کوشش کی، نتیجہ کی رو سے ان دونوں میں بہت ہی کم فرق ہے، اور در حقیقت ان متاخرین کے اقوال کو سلفِ صلح اور اھلِ سنت کے عقائد اور خیالات سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اور اگر ہے تو صرف اسی قدر جس قدر وە کتاب و سنت کے قریب ہے 

1 comment: